مری جبیں میں یہ عاجزی اس یقیں پر ہے کہ تو ہے آقا



مری جبیں میں یہ عاجزی اس یقین پر ہے کہ تو ہے آقا
 نہیں اٹھے گا جو تیرے سجدے میں میرا سر ہے کہ تو ہے آقا

مری جبیں میں یہ عاجزی اس یقیں پر ہے کہ تو ہے آقا
مری جبیں میں یہ عاجزی اس یقیں پر ہے کہ تو ہے آقا


مری جبیں میں یہ عاجزی اس یقین پر ہے کہ تو ہے آقا

 نہیں اٹھے گا جو تیرے سجدے میں میرا سر ہے کہ تو ہے آقا


ہوا بھی صرصر کے گیت گائے، فضا بھی مدہوش ہو دکھائے تری ہی توصیف میں تو ایمان کی ڈگر ہے کہ تو ہے آقا


زباں کہ لکنت سے کٹ رہی ہے، جبیں پسینے سے تر بتر ہے مگر خدایا! نزول رحمت پہ بھی نظر ہے کہ تو ہے آقا


ہزار چشمے ابل پڑیں گے تو دل کے ارماں نکل پڑیں گے

 کہ میرے جیون کی جوت تیری ہی آس پر ہے کہ تو ہے آقا


رشید حسرت کے آنسوؤں میں جھلک سے کتنی ندامتوں کا مگر عقیدت کا اس کے سینے میں بھی اثر ہے کہ تو ہے آقا

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے