کیا کچھ اور ہوتا ہے،ہُوا کچھ اور ہوتا. اردو شاعری



کِیا کچھ اور ہوتا  ہے،ہُوا   کچھ   اور   ہوتا
کہ نادانی میں چاہت کا  مزہ کچھ اور ہوتا ہے

نرالے  کام   کرتی ہے ہے  مشیت   بھی  زیادہ تر
طلب کچھ اور ہوتی ہے، عطا کچھ اور ہوتاہے

ہمارے ذہن  میں  ہوتا  ہے  نقشہ  اور ہی لیکن
ہمارے  سامنے  منظر کُھلا  کچھ اور  ہوتا  ہے

اِسی خاطر  اثر  انداز  ہوتی  ہے  غلط   فہمی
کہا  کچھ  اور  جاتا ہے،سُنا کچھ اور  ہوتا  ہے

نہیں ہم پوچھتےبارِ دگر اِس خوف سے اُس کو
منانا  چاہتے  ہیں  جب،  خفا کچھ اور ہوتا ہے

تلاشِ  یار   میں  نامی کہیں ہم جا نکلتے ہیں
ہمارے   یار  کا لیکن  پتہ  کچھ  اور   ہوتا  ہے
رستم نامی

ایک تبصرہ شائع کریں

0 تبصرے